نشاطِ درد کا عنواں بدل رہا ہے کوئی
محض خیال سے آگے نکل رہا ہے کوئی
قیام لگتی ہیں ساری مسافتیں جب سے
ہر ایک سانس کے ہمراہ چل رہا ہے کوئی
مرے خیال کی زینت رہے گا ہر منظر
بدل کے دیکھ لے رُخ گر بدل رہا ہے کوئی
یہ بے کلی تَو تری انجمن کا ہے دستور
بھلا یہاں پہ کبھی ایک کل رہا ہے کوئی
وہ شخص قید ہوں میں جس کی ذات میں ضامنؔ
اُسے خبر ہی نہیں ہے سنبھل رہا ہے کوئی
ضامن جعفری