مردِ بزرگ، صاحبِ تحقیق، خضرِ راہ
علمِ لغت کے واحد و بے تاج بادشاہ
تحفہ دیا ہے رحمتِ پروردگار نے
پیدا ہوئے ہیں گیسوئے اردو سنوارنے
عصرِ کہن کی گود کے پالے ہوئے ہیں یہ
تہذیبِ رفتگاں کو سنبھالے ہوئے ہیں یہ
اَوجِ کمال فکر کا ہے دسترس کا ہے
یہ رنگ یہ رچاؤ ستاسی برس کا ہے
جب طبع نے اشارۂ نوکِ قلم کیا
فکر و خیال نے سرِ تسلیم خم کیا
علم و ادب کی جھیل میں کِھلتا کنول ہیں یہ
صِنفِ غزل یہ کہتی ہے حسنِ غزل ہیں یہ
اشعار ہیں بلا کی روانی لئے ہوئے
ہر لفظ ایک گنجِ معانی لئے ہوئے
ایسا وقارِ لفظ و معانی کہاں سے لاؤں
آئینہ کہہ رہا ہے کہ ثانی کہاں سے لاؤں
شان و شکوہ و دبدبہ و آن بان ہے
اِن سے بہارِ گلشنِ اردو زبان ہے
ضامن جعفری