حضور اِس میں خَطا میری نہیں ہے
محبّت ہو گئی ہے کی نہیں ہے
طبیعت اب کہیِں لگتی نہیں ہے
کوئی محفل وہ محفل ہی نہیں ہے
بُرا مَت ماننا باتوں کا میری
کوئی اِن میں لگی لپٹی نہیں ہے
گذارا کر رہا ہُوں اِس سے لیکن
زمانے سے مری بَنتی نہیں ہے
مجھے بھاتا نہیں آئینہ بالکل
مروّت تو ذرا سی بھی نہیں ہے
میں دِل کی بات کہہ دُوں اُن سے ضامنؔ
مگر وہ بات کہنے کی نہیں ہے
ضامن جعفری