طوفان سے لڑنے خَس و خاشاک چلے ہیں
لو! خون کے چھینٹے سُوئے افلاک چلے ہیں
اِک عمر بِتا دیتے ہیں منزل کے لئے لوگ
دو چار قدم آپ یہ کیا خاک چلے ہیں
بن جائیں نہ پہچان کہِیں داغ لہو کے
سو اب وہ پہن کے نئی پوشاک چلے ہیں
کردے گا یہ وقت اُن کی نمائش سرِ محفل
وہ لوگ بہت بن کے جو چالاک چلے ہیں
تعمیر محل عشق کا کرتی ہے فقط روح
ضامنؔ ہیں کہ مُٹّھی میں لئے خاک چلے ہیں
ضامن جعفری