یہ حَسیں جس کو مِرا عجزِ بیاں کہتے ہیں
لغتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں
اتنے محتاط ہیں ہم پھر بھی شکایت ہم سے
گفتنی ہو بھی تَو ہم بات کہاں کہتے ہیں
چشمِ پُر آب کی کیا اُن سے وضاحت کیجے
اس کو محرومِ نظارہ کی زباں کہتے ہیں
وہ حقیقت ہے گماں کہتے ہیں ہم جس کو مگر
مصلحت ہے جو حقیقت کو گماں کہتے ہیں
تُم جسے سمجھے ہو خاموش نگاہی ضامنؔ
ہم سخن فہم اُسے سحرِ بیاں کہتے ہیں
ضامن جعفری