مبارک خاطرِ ویراں یہ کل شب کون مہماں تھا
عجب میلہ سا میلہ تھا چراغاں سا چراغاں تھا
اُمنگیں ، آرزوئیں ، حسرتیں ، رقصاں رہیِں پَیہَم
اُدھر تھی فرصتِ یک شب اِدھر برسَوں کا ساماں تھا
اِدھر تصویرِ حیرت عشق تھا اُس کو قریں پا کر
اُدھر وارفتگیِ عشق پر خود حسن حیراں تھا
مرے جذبات کی پستی نے معراجِ فنا پائی
کہ وہ حسنِ مجسّم تھا مگر شعلہ بداماں تھا
مجھے تَو اُن سے یہ قربت قیامت ہو گئی ضامنؔ
ذرا سا فاصلہ رہتا تَو کچھ جینے کا امکاں تھا
ضامن جعفری