اُن کی تَصویِر دِکھا دی جائے
شہر میں آگ لَگا دی جائے
آؤ! شُعلوں کو ہَوا دی جائے
کوئی اَفواہ اُڑا دی جائے
کیا پَتا! ہو یَہی اُن کے دِل میں
دِل کی بات اُن کو بَتا دی جائے
میری قِسمَت پہ یہ پَتّھَر کی لَکیِر
کِس نے کھینچی ہے؟ مِٹا دی جائے
بیگُناہی کو گُنہ ٹھہرا کَر
اَیسے لوگوں کو سَزا دی جائے
عَرش تَک جانے نہ پائے فَریاد
کوئی دِیوار اُٹھا دی جائے
کَون بَستی میں سُنے گا اَپنی
جا کَے جَنگَل میں صَدا دی جائے
دوستوں سے یہ گُذارِش ہے مِری
یاد آؤں تَو دُعا دی جائے
دِل کو میں مار چُکا ہُوں صاحب
اَور اَب کِتنی سَزا دی جائے
جَب وہ مائل بہ کَرَم ہَوں ضامِنؔ
دِل کی رَفتار بَڑھا دی جائے
ضامن جعفری