میانِ روز و شب چھوٹی سی بستی
بھلا میں کیا ہُوں اُور کیا میری ہستی
تھکی ماندی ،امیدِ صبحِ فردا
سفر سے رایگانی کے بالآخر
مری آغوش میں سر اپنا رکھ کے
اَبھی فردا سے بالکل بیخبر ہے
اور اِس امّید کے معصوم رُخ پر
جمی ہیں مستقل میری نگاہیں
اَگر کچھ دیر کو یہ آنکھ کھولے
کسی طرح سے میں اِس کو بتادوں
مگر اِس کو یقیں آئے نہ آئے
ابھی اِک اور بھی منزل کڑی ہے
نئی امّید کے فردا سے پہلے
ابھی تَو ایک پوری شب پڑی ہے
ضامن جعفری