یہ کس سے آشنائی ہو رہی ہے
سُنا ہے جگ ہنسائی ہو رہی ہے
تلاشِ بندگی میں تھک چکا ہوں
جہاں جاؤں خدائی ہو رہی ہے
کھڑے ہیں چلچلاتی دھوپ میں سب
دَرَختوں سے لڑائی ہو رہی ہے
ابھی تک رنگ بدلے تھے فَلَک نے
زمیں بھی اب پَرائی ہو رہی ہے
نہ منزل ہے نہ کوئی راہِ منزل
یہ کیسی رہنمائی ہو رہی ہے
نئے پنچھی گرفتارِ بلا ہیں
پُرانوں کی رہائی ہو رہی ہے
وہی سمجھائیں جا کر اُن کو ضامنؔ
وہی جن کی رَسائی ہو رہی ہے
ضامن جعفری