مَت جائیے علاجِ تمنّا کیے بغیر
رُوح و بدن کا کوئی مداوا کیے بغیر
حیرت ہے تُو سکون سے ہے اے مِرے طبیب
اپنے مریضِ ہجر کو اچّھا کیے بغیر
میرے خلوصِ عشق کی رفعت پَہ غور کر
دیکھا کِیا میں تجھ کو تمنّا کیے بغیر
یادوں کے اِک ہجوم میں ضامنؔ! وہ چھوڑ کر
تنہائی دے گیا مجھے تنہا کیے بغیر
ضامن جعفری