مثلِ آئینہ مجھے دیکھ! تردّد کیا ہے؟
چشمِ آئینہ میں حیرت کے سِوا کچھ بھی نہیں !
روح، فریاد کُناں ہے تَو سبب ہے اِس کا
قید خانے میں اذیّت کے سِوا کچھ بھی نہیں
وہ توجہ ہو تغافل ہو تبسّم ہو کہ اشک
اُس کا ہر رُوپ محبت کے سِوا کچھ بھی نہیں
اُن کے اسلوبِ نظر سے یہ عیاں ہے ضامنؔ
خامشی حُسن کی عادت کے سِواِ کچھ بھی نہیں
ضامن جعفری