خواہشِ حسنِ طلب ہے کوئی منظر آئے
حیرتِ آئینہ آئینے سے باہر آئے
لاکھ منظر مرے اطراف میں ہَوں گرمِ سخن
بات تَو جب ہے مرے لب پہ مکرّر آئے
حیرتِ عشق سے محتاط رہے قامتِ حسن
ڈُوب جاتا ہے یہاں جو بھی سمندر آئے
غیر ممکن ہے ابھی ہو مرا اندازَہِ ظرف
درد پہلے تَو مرے دل کے برابر آئے
ایک قطرہ بھی تشخّص کا بھرم رکھتا ہے
چاہے دریا میں ہو یا بن کے سمندر آئے
قلعہ در قلعہ لڑی ذات کی اِک فوجِ اَنا
ہم بھی دیوار پہ دیوار گرا کر آئے
وقت کے گہرے سمندر میں پتہ بھی نہ چلا
دعوے کرتے ہُوئے کتنے ہی شناور آئے
آزمائش تھی مرے حسنِ نظر کی ضامنؔ
کس قیامت کے مری راہ میں منظر آئے
ضامن جعفری