وہ کیسے ختم کریں گے ابھی فسانے کو
تڑپ رہا ہے مرا نام لب پہ آنے کو
نہ آرزوئے ملامت نہ حسرتِ تعریض
اب اُن کے پاس رَہا کیا ہے آزمانے کو
ترس رہا تھا جبینِ نیاز کو کب سے
وہ دن بھی یاد ہیں کچھ اُن کے آستانے کو
نہ اُن کو دل سے علاقہ نہ درد کی پہچان
کسے چلے ہیں یہ ہم دردِ دل سنانے کو
نہ آہ کوئی ہوئی بارِ خاطرِ نازک
نہ کانوں کان خبر ہونے دی زمانے کو
بہت ہی فکر ہے احباب و اقرباء کی مجھے
کہ کوئی رہ نہ گیا ہو مجھے ستانے کو
نظر تو اُن کی جھکی دل مرا دُکھا ضامنؔ
نہ مل سکا جب اُنہیں اور کچھ بہانے کو
ضامن جعفری