کبھی شَب کو رُک گئے ہیں کبھی شام ہو گئے ہیں
تِرے ساتھ گُذرے موسِم مِرے نام ہو گئے ہیں
تِری نَغمَہ سَنجیوں نے کِیے سارے زَخم تازہ
مُجھے اَب تَو دے اِجازَت تِرے کام ہو گئے ہیں
یہ حِجابِ حُسن تیرا کوئی دَم ہی کا ہے مہماں
کہ مِرے جنوں کے چرچے سَرِ عام ہو گئے ہیں
ہُوا حُسن کا تعارُف! کیے ناز کے بھی چَرچے!
تِرے سارے کرنے والے جو تھے کام ہو گئے ہیں
مُجھے جِن کی تھی تَمَنّا، تُجھے جِن کی آرزو تھی
وہ دُعائیں مِل چُکی ہیں وہ سَلام ہو گئے ہیں
تِری احتیاطِ حُسن اُور مِری جُراَتِ نظارہ!
کئی کام رُک گئے ہیں ، کئی کام ہو گئے ہیں
ہو نَویدِ عیش و عشرَت تِرے حُسنِ ظن کو ضامنؔ
کہ جنون و عشق و مَستی سَبھی عام ہو گئے ہیں
ضامن جعفری