نہ کوئی مونس نہ کوئی ہمدم کہیَں تَو کس سے کہیَں فسانہ
تمہیں خبر کیا ہنسا ہے کیا کیا رُلا رُلا کے ہمیں زمانہ
بسی تَو بستی ہمارے دل کی چلو بالآخر اِسی بَہانے
مِلا نہ کون و مکاں میں رنج و غم و اَلَم کو کوئی ٹھکانہ
قسم ہے تجھ کو بھی اے ستمگر شریکِ بزمِ طرب ہو آ کر
زمانہ خوشیاں منا رہا ہے جلا رہا ہُوں میں آشیانہ
جہاں کی نیرنگیوں سے شکوہ ہو کیا کہ تم خود بدل گئے ہو
نظر اُٹھاؤ اِدھر تَو دیکھو بنا رہے ہو عبَث بہانہ
ہر اِک طبیعت ہوئی ہے مضطر ہر اِک کو بھُولا ہے روزِ محشر
بہت پریشاں ہیں آج وہ بھی حضورِ حق ہے مرا فسانہ
سکونِ دل آج بھی ہے غارت ملے نہیں گو کہ مدّتوں سے
قدم قدم پر ہے بے قراری کو یادِ ماضی کا تازیانہ
وہ کس رعونت سے کہہ رہے ہیں اگر نہ ہَوں ہم کسی کے ضامنؔ
تو وہ سمجھ لے کہ اُٹھ گیا اِس جہان سے اُس کا آب و دانہ
ضامن جعفری