بَقَدرِ ظرف اب بھی غم نہیں ہے
تری مشقِ ستم پیہم نہیں ہے
مری ہمّت کا اندازہ تو کیجے
کوئی میرا شریکِ غم نہیں ہے
سبَق لے لالہِ کم ظرف مجھ سے
ہے دل خوں آنکھ لیکن نم نہیں ہے
میں کیوں ممنونِ دشمن ہُوں پئے غم
عزیزوں ہی کا احساں کم نہیں ہے
کوئی سمجھائے یہ بات اُس کو ضامنؔ
مجھے اُس کا ہے اپنا غم نہیں ہے
ضامن جعفری