یہیں گر موت آنی ہے تَو آ جائے
تری محفل میں اب میری بَلا جائے
بکھرتے جا رہے ہیں سارے پتّے
شجر ہے لا تعلّق کیا کِیا جائے
یہ سب یک حال بھی ہیں ہمزباں بھی
یہاں بہتر یہی ہے چُپ رہا جائے
تمہاری بزم کا یہ کیا ہے دستور
کہ جو خوش ہو کے آئے وہ خفا جائے
وہاں محفوظ ہَوں گے ہم زیادہ
چَلو گھر لے کے جنگل میں بَسا جائے
یہ بزمِ یار کی پابندیاں ہیں
یہاں سے کیسے اُٹھ کر چَل دِیا جائے
جدھر چاہے زمانہ جائے ضاؔمن
ہر اِک رستہ سُوئے کوئے فنا جائے
ضامن جعفری