﴿﴾
اے اجل! نابغۂ عصر کو مارا کیسے؟
یہ ستم تو نے کیا ہو گا، گوارا کیسے؟
جس کو احباب نے کاندھوں پہ اُٹھایا تھا سدا
اُس کو مٹّی میں ملانے کو، اُتارا کیسے؟
﴿﴾
دلوں کو مہر و محبت سے تابناک کیا
ضمیرِ اہلِ وطن، نفرتوں سے پاک کیا
وہ ایسا شخص تھا، جو اسم با مسمّیٰ تھا
خبر ہے دوستو! کس کو سپردِ خاک کیا
﴿﴾
ہر انجمن سے دُکھے دلوں کے غم و الم سب بھلا کے اُٹھّا
وہ چشمِ بیخواب کو ہمیشہ ، سکون د ےکر، سُلا کر اُٹھّا
بھلا میں اب کیا کہو نگا ضاؔ من! صفیؔ یہ پہلے ہی کہہ گئے ہیں
"ستم ظریفی تو کوئی دیکھے، ہنسانے والا رُولا کے اُٹھّا”
ضامن جعفری