نہ میں اُس کی نظر سمجھا نہ اُس کے دل کو پہچانا
بھَلا بر وقت کس نے نیّتِ قاتل کو پہچانا
تھی عادت قتل کر نے کی سو اُس نے کر دیا لیکن
نگاہِ واپسیں دیکھی تو پھر بسمل کو پہچانا
تلاشِ عافیت میں کس قدر خوش فہم تھیں موجیں
پٹختی رہ گئیں جب سر، تو پھر ساحل کو پہچانا
سدا انسان خود کو رفعتِ افلاک پر سمجھا
نہ پستی پر نظر ڈالی نہ آب و گِل کو پہچانا
میں ضامنؔ گَردِ مایُوسی میں منزل کھو چُکا ہوتا
غُبارِ راہ نے اِس وحشیِ کامل کو پہچانا
ضامن جعفری