وہ مرا نورِ نظر لختِ جگر واپس کر
زندگی بھر کی ریاضت کا ثمر واپس کر
کیسا اِنصاف ہے یہ ماؤں سے تو بچوں کو
کھیلتا چھین لے، پھر خون میں تر واپس کر
جوڑ دے تیری مشیّت سے جو دل ٹوٹے ہیں
اور آنکھوں سے بہے لعل و گہر واپس کر
کیا بھلا تیرے خزانوں کو ضرورت اُن کی
وہ شکستہ مری دیوار وہ در واپس کر
رحمتِ حق کے تصور کا بھرم رکھ ورنہ
اُس سے وابستہ سب اوصاف و ہنر واپس کر
زندگی دی ہے تو پھر اُس کے لوازم بھی ہیں
کھول راہوں کو رفیقانِ سفر واپس کر
اے محافظ مرے اے قادرِ مطلق میرے
دل یہ کہتا ہے عقائد کی سپر واپس کر
مصلحت جو بھی تری ہو مری بربادی میں
یا وہ سمجھا دے مجھے یا مرا گھر واپس کر
ضامن جعفری