طائرِ روح قفس میں ہے رِہا کردوں کیا؟
اِک یہی قرض ہے باقی سو ادا کردوں کیا؟
میری حق گوئی سے ہے سارا زمانہ عاجز
بس خدا باقی ہے اُس کو بھی خفا کردوں کیا؟
چھیڑ کر بحث کہ کیا اُس نے کِیا کیا میں نے
کہئے! محشر میں نیا حشر بپا کردوں کیا؟
بندگی رکھتی ہے کس طرح خدائی پہ نظر
یہ ہُنَر مجھ میں ہے تجھ کو بھی عطا کردوں کیا؟
قطرہِ فانیِ ہستی ہُوں اَزَل سے لیکن
کر بھی سکتا ہُوں اِسے جوئے بقا، کردوں کیا؟
اُس کی خاطر نہ سہی اپنی اَنا کی خاطر
اِک نئے عزم سے آغازِ وفا کردوں کیا؟
اختلافِ جَسَد و روح سے عاجز ہُوں میں
امن کس طرح ہو؟ دونوں کو جُدا کردوں کیا؟
میرے گھر آئے گا اِک حُسنِ مجسّم ضامنؔ
سوچ میں بیٹھا ہُوں بندے کو خدا کردوں کیا؟
ضامن جعفری