نہ وہ چمن نہ چَلَن ہے سو رنگ و بُو بھی نہیں
اَب آرزو ہی نہیں ہے تَو جُستجو بھی نہیں
سُرود و ساز و مُغَنّی کو ڈھونڈنے نکلوں
مِرا مِزاج نہیں ہے یہ میری خُو بھی نہیں
یہ کہہ کے آخری خواہش کو کر دیا رُخصَت
کہ آج سے میں اَکیلا رَہوں گا تُو بھی نہیں
مَزہ ہے زیست کا جب تک کہ روح ہے سَرشار
اَگر نہیں ہے تَو پھر لُطفِ ہاؤ ہُو بھی نہیں
نہیں تھے تُم تَو نَظَر ہو چلی تھی آوارہ
تُم آگئے تَو اِسے شوقِ کُو بہ کُو بھی نہیں
زَمانے تُجھ سے مِرے زَخم مُختلِف کیوں ہیں
مشابہَت بھی نہیں کوئی ہُو بَہُو بھی نہیں
یہ میں ہُوں یا ہے کوئی مُجھ میں اَجنَبی ضامنؔ
جو خُود سے رہتی تھی اَب تَو وہ گُفتگُو بھی نہیں
ضامن جعفری