سیلابِ بے حسی میں بَہے جارہے ہیں ہم
الزام دوسروں کو دیے جارہے ہیں ہم
پچھتاوا کیسا اور کہاں کی ندامَتیں
خود کو تباہ کر کے ہنسے جا رہے ہیں ہم
سب کھو کے حرف و لفظ و معانی کا اعتبار
نطق و سماع دفن کیے جا رہے ہیں ہم
رستے سے زادِ راہ سے منزل سے بے نیاز
حیرت کا اِک سفر ہے چلے جارہے ہیں ہم
وہ باغباں ہیں ہم کہ تلاشِ بَہار میں
صیّاد جو کہے وہ کیے جا رہے ہیں ہم
مایوسیوں کو دے کوئی امرت امید کا
اے خواہشِ حیات! مرے جا رہے ہیں ہم
ہَم کو بَھلا زَمانے کے رَدِّ عمل سے کیا
ضامنؔ! جو مُنہ میں آئے کہے جارہے ہیں ہم
ضامن جعفری