اقرارِ محبت بھی کریں کیوں نہیں کرتے

وہ میری امیدوں کا اگر خوں نہیں کرتے
اقرارِ محبت بھی کریں کیوں نہیں کرتے
یہ چشمِ فسوں گر یہ کھنکتی ہوئی آواز
مُنہ پر تو کہیں میرے ہم افسوں نہیں کرتے
کچھ آپ ہی کی گردِ قدم ہو گئے، ورنہ
ہم لوگ کبھی خاطرِ گردوں نہیں کرتے
xیوں دل میں تو دلجوئی پہ راضی ہیں ہماری
جب وقتِ رضا ہو تو کبھی ہوں نہیں کرتے
بد نامیٔ لیلیٰ کا سبب قیس تمہی ہو
ہم لوگ تو مر جاتے ہیں پر یوں نہیں کرتے
دل توڑنے والوں کو دعا دیجیے ضامنؔ
صدیوں کے طریقوں کو دگرگوں نہیں کرتے
ضامن جعفری

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s