غمِ ہستی کے افسانوں کو دوہرانے سے کیا ہو گا
ابھی کچھ کم ہیں اُلجھے! اَور اُلجھانے سے کیا ہو گا
جنونِ عشق میرا حشر میں سب کو بچا لایا
زمانہ یہ سمجھتا تھا کہ دیوانے سے کیا ہو گا
رہَے کچھ فاصلہ تَو حُسنِ منظر لطف دیتا ہے
تمہیں معلوم ہے؟ نزدیک آجانے سے کیا ہو گا؟
ضرورت جس کی دَوارنِ سَفَر ہو گی نہ منزل پر
وہ سامانِ سَفَر سب ساتھ لے جانے سے کیا ہو گا
جنوں والوں میں ضامنؔ کچھ نتیجہ عین ممکن ہے
جنہیں زعمِ خِرَد ہے اُن کو سمجھانے سے کیا ہو گا
ضامن جعفری