کہیں اُجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در
یہ وہی دیار ہے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر
میں بھٹکتا پھرتا ہوں دیر سے یونہی شہر شہر نگر نگر
کہاں کھو گیا مرا قافلہ کہاں رہ گئے مرے ہم سفر
جنھیں زِندگی کا شعور تھا اُنہیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینہِ خاک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر
مری بیکسی کا نہ غم کرو مگر اپنا فائدہ سوچ لو
تمھیں جس کی چھاؤں عزیز ہے میں اُسی درخت کا ہوں ثمر
یہ بجا کہ آج اندھیر ہے ذرا رُت بدلنے کی دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خشک ہے وہی شاخ لائے گی برگ و بر
ناصر کاظمی