یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
’’حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے بھی‘‘
یہ پیش خیمہِ بیدادِ تازہ ہو نہ کہیں
بدل رہی ہے ہوا سازگار اگر ہے بھی
لہو کی شمعیں جلاؤ قدم بڑھائے چلو
سروں پہ سایہِ شب ہائے تار اگر ہے بھی
ابھی تو گرم ہے میخانہ جام کھنکاؤ
بلا سے سر پہ کسی کا ادھار اگر ہے بھی
حیاتِ درد کو آلودئہ نشاط نہ کر
یہ کاروبار کوئی کاروبار اگر ہے بھی
یہ امیتازِ من و تو خدا کے بندوں سے
وہ آدمی نہیں طاعت گزار اگر ہے بھی
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے زِندگی ناصر
بس ایک جبر ہے یہ اختیار اگر ہے بھی
ناصر کاظمی