ہنستے پھولو ہنستے رہنا
تم ہو پاک وطن کا گہنا
دُھوم ہے گھر گھر آج تمھاری
خوشبو کی نہریں ہیں جاری
شاخوں نے پھر گہنا پہنا
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
پھول ہیں تھوڑے ، خار بہت ہیں
پردے میں اغیار بہت ہیں
اپنا بھید کسی سے نہ کہنا
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
تم ہو شہیدوں کا نذرانہ
تم کو قسم ہے سر نہ جھکانا
آپس کے دُکھ مل کر سہنا
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
راوی اور چناب کے پیارو
جہلم ، سندھ کی آنکھ کے تارو
آج سے میرے دل میں رہنا
ہنستے پھولو ہنستے رہنا
(۱۵ نومبر ۱۹۶۵)
ناصر کاظمی