ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
وادیوں میں گھاٹیوں میں سربکف
بادلوں کے ساتھ ساتھ صف بہ صف
دشمنوں کے مورچوں پہ ہر طرف
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
بے مثال ارضِ پاک کے جواں
لازوال سرحدوں کے پاسباں
بڑھ رہے ہیں خاک و خوں کے درمیاں
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
ساتھیو بلا رہی ہے زندگی
خون میں نہا رہی ہے زندگی
موت کو بھگا رہی ہے زندگی
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
ڈرنے والے ہم نہیں ہیں جنگ سے
گاڑیوں سے توپ اور تفنگ سے
ڈٹ کے ہم لڑیں گے ڈھنگ ڈھنگ سے
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
موج موج بڑھ رہے ہیں لشکری
لشکرِ غنیم میں ہے ابتری
گونجنے لگی صدائے حیدری
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
(۸ ستمبر ۱۹۶۵ موسیقی۔ سلیم حسین آوازیں ۔سلیم رضا، منیر حسین اور ساتھی)
ناصر کاظمی