صبح کا وقت ہے۔ اکبر، احمد کنچ گھر کے ایک کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں ۔ یہ کنچ گھر سورج پور سے 1-1/2 میل کے فاصلے پرہے۔ پہلے اس کے حصّہ دار اور مالک عبدل اور حسنی تھے۔ پھر ہجرت کے بعد اکبر ان میں مل گیا۔ اب عبدل اور حسنی کے بعد اکبر اور احمد اس کے مالک بن گئے ہیں ۔ کنچ گھر میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں ۔ اس کے چاروں طرف نواں شہر آباد ہو گیا ہے۔ بہت سے کاریگر اور مزدور بدل گئے ہیں اور اس کا کام بھی ذرا پھیل گیا ہے۔ لیکن کنچ گھر کا انجینئر وہی ہے۔
زمانہ : ہجرت کے بعد
کردار
احمد، اکبر، شیشہ گر
کنچ گھر کی آواز : کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک
کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک
کھڑانک کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک
کھڑانک کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک
اکبر اور احمد، حسنی کے کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں ۔ ایک شیشے کی الماری میں حسنی کی چتر بین خاموش پڑی ہے۔ حسنی کے بعد اس کسی نے نہیں چھیڑا۔ اکبر اور احمد، بینا کو دیکھتے ہیں اور کچھ دیر خاموش رہتے ہیں
(احمد کو حسنی کا خیال آتا ہے )
بینا با جے تنانوم تنانوم
جھانجن بولے چھن
بینا باجے تنانوم تنانوم
احمد : (میز پر رکھے ہوئے (PAPER WEIGHT) کو دیکھ کر اکبر سے مخاطب ہوتا ہے)
یہ شیشے کی بٹی!
یہ شیشے کی بٹی میں رنگوں کے آنسو!
یہ کیا بلبلے سے چمکتے ہیں دیکھو!
اکبر : ذرا سی بٹی میں ایک دُنیا بسی ہوئی ہے
نظامِ شمسی کے سارے رشتے سمٹ گئے ہیں
یہ ایک ننھا سا آسماں ہے
اُسی طرح صاف اور شفاف اُجلا اُجلا!
یہ کھڑکیاں اور یہ کھڑکیوں کے سفید شیشے
سفید شیشوں سے روشنی کی پھوار چھن چھن کے گر رہی ہے
یہ روشنی دائروں کے اندر!
یہ دائرے روشنی کے اندر!
یہ روشنی کے سفید نقطے!
چہار جہتی زماں کا دھارا
خموش چیزوں کو لے اُڑا ہے
یہ روشنی معجزے کی صورت اُتر رہی ہے
خموش چیزیں بھی چل رہی ہیں
احمد : چلو کنچ گھر مشینیں تو دیکھیں
شیشہ گر کمرے کے اندر آتا ہے اور احمد اور اکبر کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگتا ہے۔ مشینوں کی آواز دُور سے آرہی ہے۔
کھڑنک کھڑنک چھک ٹڑک ٹڑک
کھڑنک کھڑنک چھک ٹڑک ٹڑک
شیشہ گر : کیوں بھائی سوچ لیا تم نے؟
اکبر : مجھے تو منظور ہے سبھی کچھ
اب آپ احمد کوراضی کر لیں !
احمد : مجھے کوئی انکار ہے میرے بھائی!
جو یاروں کی مرضی وہی میری مرضی!
شیشہ گر : اب آپ ہی فیصلہ کر لیجیے کہ عبدل اور حسنی
کے حصّے کیسے بٹیں ؟
ان کا تو کوئی وارث بھی نہیں !
حق دار تو اس کے آپ ہی ہیں
لیکن ذرا سوچ سمجھ لینا!
احمد : مگر آپ کا بھی تو حصّہ ہے اس میں !
اکبر : بجا ہے بھائی! تمھاری محنت ہمارا پیسہ!
احمد : تو پھر تین حصّے ہوے۔
کچھ تو اللہ کے رستے میں دے دو!
جو باقی بچے اس کو تینوں میں تقسیم کرلو
اکبر : تو اتنی جلدی ہی کیا ہے احمد؟
مرا تو دِل کانپتا ہے جب بھی خیال آتا ہے دوستوں کا
یہ حصّے وِصّے کی بات چھوڑو!
جو کام کرنا ہے کرتے جاؤ!
احمد : میں قانون کی رُو سے کہتا ہوں
ورنہ میرا دِل بھی دُکھتا ہے
حسنی بھی اپنا بڑا یار تھا
اور عبدل تمھار ا بڑا دوست تھا
بلکہ دونوں تمھارے ہی ساتھی۔۔۔
مگر خیر! چھوڑو یہ باتیں !
ذرا کنچ گھر تو دکھا دو!
اکبر : (شیشہ گر کی طرف اشارہ کر کے)
یہ شیشہ گر ہیں انہی ں سے کہیے!
بڑی ہی منت سے میں نے ان کو منا لیا ہے
کہ کنچ گھر چھوڑ کر نہ جائیں
شیشہ گر : چلو پہلے مشین کو دیکھیں ہم!
احمد : تو یہ کنچ گھر کیسے چلتا ہے؟
ٹَرک چھک چھک
ٹَرک چھک چھک
شیشہ گر : یہ موٹر ہے! —- بجلی کے زور سے چلتی ہے
یہ دو بڑی چرخیاں سب سے پہلے گھومتی ہیں !
چرخی گھم گھیریاں کھاتی ہے اور باقی پہیے گھومتے ہیں
پھر ان کے ساتھ ہی چھوٹے بڑے سب پرزے چلنے لگتے ہیں
یہ چمنی ہے ! —- چمنی میں ایندھن جلتا ہے
ایندھن کولے کا ہوتا ہے —- لکڑی اور پتھر کا کولہ !
یہ بھٹی ہے! —- بھٹی میں شیشہ پگھلتا ہے اور سانچوں میں گر تا رہتا ہے
یہ کئی قسم کے سانچے ہیں !
ان سانچوں میں ہر طرح کی چیزیں بنتی ہیں
یہ پرچ پیالے، یہ کوزے، یہ جھاڑ یہ قیف
یہ نلکیاں یہ گل دان یہ جگ، سوڈے کی بوتلیں
اَور گلاس، یہ سارے کانچ سے بنتے ہیں !
احمد : یہ شیشوں کے تختے!
یہ شیشہ بھلا کس طرح کاٹتے ہیں ؟
شیشہ گر : یہ ٹھوس حجم نازک شیشہ ہیرے کی قلم سے کٹتا ہے
شیشے کی نازک چادرکو نوکیلے کھردرے کنکر سے بھی کاٹتے ہیں
ہیرے کی قلم کبھی دیکھی ہے؟
اس شیشے کو پیمانہ رکھ کر کاٹتے ہیں
ہیرے کی قلم سے تیز لکیر لگاتے ہیں
پھر دونوں طرف سے شیشے کو ہاتھوں سے دبا کر توڑتے ہیں
یہ کام بڑا ہی نازک ہے!
احمد : مگر یہ بتاؤ کہ شیشہ پگھلتا ہے کیسے؟
شیشہ گر : پہلے تو کانچ کی کرچیوں کو یا کانچ کے چھوٹے ٹکڑوں کو
بھٹی کے اندر ڈالتے ہیں
پھر چاروں طرف سے بھٹی کو ڈھک دیتے ہیں
یہ بھٹی جوں جوں تپتی ہے شیشے میں لرزش ہوتی ہے
پہلے تو ایک ہی نقطے پر اک تھرتھری ہونے لگتی ہے
پھر تھرتھری بڑھنے لگتی ہے اور ذرّے ہلنے لگتے ہیں
ذرّوں میں کھلبلی مچتی ہے
پھر ذرّے آگے اور پیچھے کیڑوں کی طرح سے رینگتے ہیں
یوں شیشہ پگھلتا رہتا ہے
سانچوں میں ڈھلتا رہتا ہے
اور چیزیں بنتی رہتی ہیں
یہ ریشم سے اُلجھے اُلجھے لچھے سے جو تم دیکھتے ہو
یہ سانچوں میں سے اُچھل کر باہر گرتے ہیں
احمد : بڑا ہی ادق کھیل ہے شیشہ سازی!
میں کتنے دنوں میں اسے سیکھ لوں گا!
شیشہ : دُنیا جسے شیشہ کہتی ہے وہ ایک طرح کا پتھر ہے
یہ شیشہ جو تم دیکھتے ہو پتھر کے دِل کا جوہر ہے
جو رنگ نظر آتے ہیں تمھیں اس شیشہ سازی کے فن میں
کبھی آنکھیں موند کے دیکھو تم، یہی رنگ ہیں دِل کے درپن میں
مجھے شیشہ گر ہی نہ سمجھو تم مرا شیشہ پھوٹ نہیں سکتا
میں جوہری ہوں جس جوہر کا وہ جوہر ٹوٹ نہیں سکتا
آپ آتے رہیں تو چند دنوں میں سارا کھیل سکھا دُوں گا
اس شیشہ گری کی صنعت کے سب راز رموز بتا دُوں گا