گلِ عارض کی جھلک یاد آئی

شبنم آلود پلک یاد آئی
گلِ عارض کی جھلک یاد آئی
پھر سلگنے لگے یادوں کے کھنڈر
پھر کوئی تاکِ خنک یاد آئی
کبھی زلفوں کی گھٹا نے گھیرا
کبھی آنکھوں کی چمک یاد آئی
پھر کسی دھیان نے ڈیرے ڈالے
کوئی آوارہ مہک یاد آئی
پھر کوئی نغمہ گلو گیر ہوا
کوئی بے نام کسک یاد آئی
ذرّے پھر مائلِ رَم ہیں ناصرؔ
پھر اُنھیں سیرِ فلک یاد آئی
ناصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s