گزری جو ترے ساتھ وہ شب یاد رہے گی

کم فرصتئی خوابِ طرب یاد رہے گی
گزری جو ترے ساتھ وہ شب یاد رہے گی
ہرچند ترا عہدِ وفا بھول گئے ہم
وہ کشمکشِ صبر طلب یاد رہے گی
سینے میں امنگوں کا وہی شور ہے اب تک
وہ شوخیٔ یک جنبشِ لب یاد رہے گی
پھر جس کے تصوّر میں برسنے لگیں آنکھیں
وہ برہمیٔ صحبتِ شب یاد رہے گی
گو ہجر کے لمحات بہت تلخ تھے لیکن
ہر بات بعنوانِ طرب یاد رہے گی
ناصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s