کیا چیز زندہ بند ہے دل کے رباب میں

بدلی نہ اس کی رُوح کسی اِنقلاب میں
کیا چیز زندہ بند ہے دل کے رباب میں
لفظوں میں بولتا ہے رگِ عصر کا لہو
لکھتا ہے دستِ غیب کوئی اس کتاب میں
تو ڈھونڈتی ہے اب کسے اے شامِ زندگی
وہ دِن تو خرچ ہو گئے غم کے حساب میں
خوش وقتیوں میں تم جنہیں بھولے ہوئے ہو آج
وہ یاد آئیں گے تمھیں حالِ خراب میں
یارانِ زُود نشہ کا عالم یہ ہے تو آج
یہ رات ڈوب جائے گی جامِ شراب میں
نیندیں بھٹکتی پھرتی ہیں گلیوں میں ساری رات
یہ شہر چھپ کے رات کو سوتا ہے آب میں
یہ آج راہ بھول کے آئے کدھر سے آپ
یہ خواب میں نے رات ہی دیکھا تھا خواب میں
ناصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s