کبھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا
کہ تجھ سے مل کے بھی ترا خیال آ کے رہ گیا
جدائیوں کے مرحلے بھی حسن سے تہی نہ تھے
کبھی کبھی تو شوق آئنے دکھا کے رہ گیا
کسے خبر کہ عشق پر قیامتیں گزر گئیں
زمانہ اُس نگاہ کا فریب کھا کے رہ گیا
یہ کیا مقامِ شوق ہے نہ آس ہے نہ یاس ہے
یہ کیا ہوا کہ لب پہ تیرا نام آ کے رہ گیا
کوئی بھی ہم سفر نہ تھا شریکِ منزلِ جنوں
بہت ہوا تو رفتگاں کا دھیان آ کے رہ گیا
چراغِ شامِ آرزو بھی جھلملا کے رہ گئے
ترا خیال راستے سجھا سجھا کے رہ گیا
چمک چمک کے رہ گئیں نجوم و گل کی منزلیں
میں درد کی کہانیاں سنا سنا کے رہ گیا
ترے وصال کی اُمید اشک بن کے بہہ گئی
خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا کے رہ گیا
وہی اُداس روز و شب، وہی فسوں، وہی ہوا
ترے وصال کا زمانہ یاد آ کے رہ گیا
ناصر کاظمی