کہیں کہیں کوئی تارا ہے اور کچھ بھی نہیں اگست 4, 2018قطعہ،ناصر کاظمی،برگِ نےکہیں کہیں کوئی تارا ہے اور کچھ بھی نہیںadmin کہیں کہیں کوئی تارا ہے اور کچھ بھی نہیں نہ پوچھ آج شبِ ہجر کس قدر ہے اُداس کہیں کہیں کوئی تارا ہے اور کچھ بھی نہیں رواں دواں ہیں سفینے تلاش میں جس کی وہ اک شکستہ کنارا ہے اور کچھ بھی نہیں ناصر کاظمی Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔ Related