کہو اے مکینو کہاں ہو یہ کیسا مکاں ہے

زمیں چل رہی ہے کہ صبحِ زوالِ زماں ہے
کہو اے مکینو کہاں ہو یہ کیسا مکاں ہے
پریشان چیزوں کی ہستی کو تنہا نہ سمجھو
یہاں سنگ ریزہ بھی اپنی جگہ اِک جہاں ہے
کبھی تیری آنکھوں کے تل میں جو دیکھا تھا میں نے
وُہی ایک پل محملِ شوق کا سارباں ہے
کہیں تو مرے عشق سے بدگماں ہو نہ جائے
کئی دِن سے ہونٹوں پہ تیرے نہیں ہے نہ ہاں ہے
خدا جانے ہم کس خرابے میں آ کر بسے ہیں
جہاں عرضِ اہلِ ہنر نکہتِ رائیگاں ہے
جہانوں کے مالک زمانوں سے پردہ اُٹھا دے
کہ دل اِن دِنوں بے نیازِ بہار و خزاں ہے
ترے فیصلے وقت کی بارگاہوں میں دائم
ترے اِسم ہر چار سو ہیں مگر تو کہاں ہے
خمارِ غریبی میں بے غم گزرتی ہے ناصر
درختوں سے بڑھ کر مجھے دھوپ کا سائباں ہے
ناصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s