چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

یہ قوم کے شاہین ہیں جرأت کے ستارے

اُڑتے ہیں یہ شاہیں تہِ افلاک جہاں تک

اِک آگ کا دریا نظر آتا ہے وہاں تک

مشرق کے کنارے کبھی مغرب کے کنارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

اِک جست میں دشمن کے نشیمن کو جلایا

جو سامنے آیا اُسے اِک پل میں گرایا

ہیں اِن کے پر و بال میں بجلی کے شرارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

بھولے سے کبھی اِن کے نشانے نہیں چوکے

فی النار کیے آن میں طیارے عدو کے

کچھ ڈھیر کیے خاک پہ کچھ راہ میں مارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

ہو اَمن کا موسم تو یہ خوشبو ہیں صبا ہیں

اور جنگ میں دشمن کے لیے قہرِ خدا ہیں

محفوظ ہے یہ پاک وطن اِن کے سہارے

چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے

(۱۱ دسمبر ۱۹۷۱)

ناصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s