عبدل گاؤں کی لڑکیوں کو بڑھ کے ایک گھنے درخت کے پیچھے چھپ کر دیکھ رہا ہے۔ اس کے خاکی گھوڑے کی لگام اس کے ہاتھ میں ہے۔
مقام : سورج پور کے باہر میدان میں
کردار
نندی، یاسمینہ، زرینہ، عبدل، اکبر
نندی : کنویں میں نہ جھانکو!
یہاں سانپ رہتے ہیں
یا سمینہ : تیرا تو سر پھرا ہے!
نندی : نہیں یا سمینہ یہ سب سے پرانا کنواں ہے
یہاں اب کے ساون میں بھیا نے دو سانپ مارے تھے
کم بخت پھنیئر تھے!
یاسمینہ : سانپ اور اس کنویں پر!
نندی : (جھنجھلا کر)
وہ کھیتوں میں کیا ہے؟
وہ گھوڑے پہ کون آرہا ہے؟
یاسمینہ : ہو گا کوئی تمھیں کیا؟
نندی : چلو آؤ دیکھیں تو وہ کون ہے؟
یاسمینہ : حسنی ہے میں تو جانوں !
نندی : اری چپ رہو! اس میں ہمت ہے اتنی!
زرینہ : (گنگنانے لگتی ہے)
بہتا ساگر چھوڑ کے کاہے لیؤ بن باس
برھن بدری اُڑے اکیلی دُور بھیؤ آکاس
ساجن بن جی نہ لگے برھن گا وے جوگ
نگر ی نگری پھرے اکیلی پتھر ماریں لوگ
یاسمینہ : اچھا جی اب میں سمجھی!
تو بھی جلی ہوئی ہے!
نندی : بڑی پارسا ہے نا تو!
جانتی ہوں !
بتا کون تھا وہ جو میلے میں سُکھ پال لایا تھا؟
اب بولتی کیوں نہیں ؟
کیسی چپکی کھڑی ہے ؟
یاسمینہ، نندی اور زرینہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتی ہیں اور گانے لگتی ہیں ۔
یاسمینہ : ماں ری ماں میں چودہ برس کی
(سب مِل کر ) : سولہ برس کا تھا —- چھورا رانگڑ کا
سولہ برس کا تھا —- چھورا رانگڑ کا
مجھے بلا وے تھا —- چھورا رانگڑ کا
وقفہ
عبدل گھوڑے پر سوار ہو کر سامنے آتا ہے۔ زرینہ اور یا سمینہ ڈر کر ایک طرف ہوجاتی ہیں اورنندی اکیلی رہ جاتی ہے۔
عبدل : آؤ میں تم کو گھر چھوڑ آؤں
دیکھو! سورج کتنا نیچے اُتر گیا ہے؟
نندی : (ذراگھبرا کر )
نہیں جی! چلے جاؤ!
عبدل : ٹھہرو نندی!
نندی : امی کہتی تھیں غیر آدمی سے نہیں بات کرتے !
عبدل : وہ دِن یاد ہیں !
اسی کنویں پر سانجھ سویرے کھیلنے آتے !
وہ اِملی کا درخت ابھی تک اسی طرح خاموش کھڑا ہے!
آؤ گٹارے توڑیں !!
میں اِملی پہ چڑھ جاتا ہوں
تم پلا پھیلاؤ!
وہ دیکھو! وہ ریت پہ بڑھیاں دَوڑرہی ہیں !
آؤ اُن کے پیچھے بھاگیں !
اُس نے پھر کشتی کے لنگر کھول دیے ہیں ۔
کشتی چلنے لگی ہے!
پانی کی آواز سنی ہے تم نے؟
(عبدل سامنے ایک کیکر کے درخت پہ گڑسل کو کنکر مارکر اُڑا دیتا ہے)
نندی : (انگلی میں انگوٹھی کو پھرانے لگتی ہے)
شام کی خامشی میں درختوں پہ کنکر نہیں مارتے
شام کو پیڑ آرام کرتے ہیں عبدل!
یہ رونے کی آواز کس کی ہے؟
عبدل : چرواہی بھیڑوں کو ہانک رہی ہے!
نندی : (گھبرا کر) نہیں یہ تو اُلّو کی آوازہے
جھاڑیوں میں کہیں کوئی چوہا چھپا ہے!
(زمین کی طرف دیکھ کر چونک پڑتی ہے)
ارے میں تو ڈر ہی گئی تھی!
یہ گھوڑے کا سم ہے!
یہ اتنا بڑا قافلہ کس طرف جا رہا ہے!
عبدل : بے چارے اوڈ ہیں ، خانہ بدوش ہیں
نگری نگری آوارہ پھرتے رہتے ہیں
مینہ بندی ہو، آندھی ہو، چمکیلا دن ہو، کالی رات ہو
رستے ہی میں پڑے رہتے ہیں
آدمی دن بھر مزدوری کرتے رہتے ہیں
عورتیں اپنے بچوں کو گودی میں لے کر
گھا س پھوس اور ڈھیکر چنتی رہتی ہیں
اُونٹوں اور بھیڑوں کے دُودھ کو شہر میں جا کر بیچتی ہیں
نندی : میں کہتی ہوں کوئی یہاں آ گیا تو!!
عبدل : (خانہ بدوشوں کے قافلے کی طرف دیکھتے ہوے)
یہ دھرتی اب سارے بندھن توڑ چُکی ہے
اب یہ قبیلہ جاگ رہا ہے
بھیڑوں کو للکار رہا ہے
یا یہ بھیڑیں دُودھ نہ دیں گی
یا پھر ان کے تھن پر تھیلی چڑھ نہ سکی گی
وہ دیکھو! وہ رنگ بر نگے ذرّے
بھورے بھورے نیلے نیلے پتھر
ریت کے تارے آگ کی ہولی کھیل رہے ہیں
پیلی کرنیں کیکر کی سیڑھی سے اُتر رہی ہیں
کالے ناگ سنہری جیب نکالے
گل کنجوں میں ناچ رہے ہیں
نندی : ہوا کتنی خاموش ہے!
فاختہ ریت کے نرم بستر پہ چپ چاپ بیٹھی ہے
ندی ہے ندی کا پانی ہے، پانی کی آوازہے
فاختہ بہتے پانی کے شیشے میں اپنے ہی رُوپک کو تکتی ہے
لہریں اُچھلتی ہیں اور بیٹھ جاتی ہیں
عبدل : اس کے ننھے پنجے دیکھو
ریشم کے لچھوں کی طرح باریک ملائم
اُس کے پر اور اُس کی چونچ کو غور سے دیکھو
جب یہ اپنی چونچ کو ریت پہ گھستی ہے
تو سارا جنگل گاتا ہے ۔۔۔
تم کیا سوچ رہی ہو؟
نندی : نہیں کچھ نہیں باؤلی ہو گئی ہوں !
عبدل : سوچ رہا ہوں ہم یوں کب تک
ہم یوں کب تک ۔۔۔ تم ہی سوچو! ۔۔۔ ہم یوں کب تک!
نندی : چلو اب یہاں سے چلیں !
عبدل : فاختہ اُڑ کر ڈال پہ جا بیٹھی ہے
وہ دیکھو پھر نیچے اُتر گئی ہے !
اس کی چونچ میں کیا ہے؟
نندی : وہ سرسوں کی پھلچی ہے!
عبدل : نیل کنٹھ کا پر ہے شاید!
نندی : یہ اُڑتی نہیں —- آؤاس کو اُڑائیں !
عبدل : وہ دِن یاد ہیں !
مکتب سے جب چھٹی ملتی
ہم سب لڑکے چھوٹے چھوٹے کنکر چنتے
فاختہ جونہی سامنے آتی
سب ہمجولی اپنی اپنی غلیل چلاتے
نندی : (گھبراکر) امی کہتی تھیں یہ اِک مقدس پرندہ ہے
اس کو نہیں مارتے!
ایک دن میرے بھیا کو امی نے مارا تھا
وہ فاختہ مار لایا تھا
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
ارے! وہ سنا تم نے!
عبدل : (حیرت سے) کیا ہے نندی؟ کیا ہے؟
نندی : ریل گاڑی ہے!
دیکھو وہ کیاشے جھلک مارتی ہے!
وہ گھوڑے پہ کون آ رہا ہے؟
عبدل : اکبر! اکبر اپنا دوست ہے نندی!
(اکبر ان دونوں کے قریب آ کر گھوڑا روک لیتا ہے)
اکبر : سلام بھیا! مزے میں ہو، خوب کٹ رہی ہے!
ملو گے ڈیرے میں !
رات کو تم ضرور آنا!
(اکبر چلنے لگتا ہے)
عبدل : اکبر بھیا! ٹھہرو اکبر! بات تو سنتے جاؤ۔
حسنی کہیں ملے تو کہنا رات کو ڈیرے میں آجائے!
اکبر : میں کنچ گھر جار ہا ہوں عبدل
تمھارا پیغام بھیج دُو ں گا!
بڑی اندھیری ہے آج کی شام
آندھی آئے گی!
(اکبر گھوڑے کو ایڑ لگا کر ہوا ہو جاتا ہے)
عبدل : اکبر بھی کیا سوچتا ہو گا؟
حسنی نے بھی کئی دِنوں سے ملنا چھوڑدیا ہے
نندی : اُدھر گرد سی اُڑ رہی ہے!
عبدل : ریت اُڑی ہے کچھ بھی نہیں ہے
نندی : نہیں وہ ادھر آرہے ہیں !
چلو اس بنی کے درختوں میں چھپ جائیں !
رات ہو گئی ہے!
عبدل : ڈرو نہیں میں ساتھ ہوں نندی!
اُس تالاب کے پیپل کے نزدیک نہ جانا!
ٹھہرو نندی میں بھی آیا!!