انہد مرلی شور مچایا
مرشد نے سب بھید بتائے
عقل و ہوش و حواس اُڑائے
مدہوشی میں ہوش سکھا کر
منزل کا رستہ دکھلایا
انہد مرلی شور مچایا
جلوئہ وحدتِ کامل دیکھا
نقشِ دوئی کو باطل دیکھا
عالم کے اَسرار کو سمجھا
دھیان گیان کے راز کو پایا
انہد مرلی شور مچایا
نورِ حقائق ہوا نمایاں
سرِ حقیقت ہو گئے آساں
فاش ہوا ہر نکتہِ پنہاں
قرب و بعد کا فرق مٹایا
انہد مرلی شور مچایا
سن کر اس مرلی کی باتیں
اُلجھے راز انوکھی باتیں
بھولے سبھی صفاتیں ذاتیں
وحدت نے وہ رنگ جمایا
انہد مرلی شور مچایا
(ترجمہ از خواجہ غلام فرید، نومبر ۱۹۶۸ ۔ جشنِ فرید منعقدہ ملتان میں پڑھا گیا)
ناصر کاظمی