یہ رات تمھاری ہے چمکتے رہو تارو
وہ آئیں نہ آئیں مگر اُمید نہ ہارو
شاید کسی منزل سے کوئی قافلہ آئے
آشفتہ سرو صبح تلک یونہی پکارو
دن بھر تو چلے اب ذرا دم لے کے چلیں گے
اے ہمسفرو آج یہیں رات گزارو
یہ عالمِ وحشت ہے تو کچھ ہو ہی رہے گا
منزل نہ سہی سر کسی دیوار سے مارو
اوجھل ہوے جاتے ہیں نگاہوں سے دو عالم
تم آج کہاں ہو غمِ فرقت کے سہارو
کھویا ہے اُسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سنے، لاکھ پکارو!
ناصر کاظمی