حسنی اور احمد سورج پور سے دومیل کے فاصلے پر جنگل کے شمالی حصّے کے ساتھ ساتھ گھوڑوں پر بیٹھے عبدل اور نندی کی تلاش میں پھر رہے ہیں ۔ اندھیری رات ہے۔ سناٹا ایک حادثے کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ احمد اور حسنی کے گھوڑے دوڑ دوڑ کر پسینہ پسینہ ہو گئے ہیں ۔
کردار
احمد، حسنی، ناری
احمد : تمھارا تو سر پھر گیا ہے!
ارے میں بہت تھک گیا ہوں
میری انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھنے لگی ہیں
حسنی : بھانبڑ جلے سریر ماں رنگ اچھالیں نین
من دیپے جس رین ماں ، وہی نہ ہو یہ رین!
احمد : بھلا اس اندھیری بَنی میں تمھیں کیا ملے گا؟
تمھیں جان پیاری نہیں ؟
حسنی : موت کھڑی جس باٹ پہ وہی ہے میری باٹ
گُروجی میری دھیر بند ھاؤ میں اُتروں کس گھاٹ؟
احمد : آؤ ندی کے اُس پار اُتریں !
اُدھر ایک رستہ ہے
حسنی : (احمد سے )
من کی اکھیاں کھول کے دونوں اکھیاں میچ
پھوٹے گا پھر چاندنا، ندی کے بیچوں بیچ
احمد : ارے یہ تو جادُو کی دھرتی ہے!
حسنی : دھرتی اُوپر نیلا گگن، گگن پہ ناچیں پھُول
ان کی چھایا دیکھ کے، جل میں جلیں بھنبول
حسنی اور احمد کے گھوڑے چلتے چلتے ایک دَم رُک جاتے ہیں ۔ حسنی اور احمد بہت کوشش کر تے ہیں لیکن گھوڑے آگے نہیں چلتے۔ دونوں گھوڑے اگلے پاؤں اُٹھا کر ہنہناتے ہیں اور خر خر کرتے ہیں اور اپنی کنوٹیاں جلدی جلدی گھماتے ہیں ۔ احمد بہت اصرار کرتا ہے لیکن حسنی واپس جانے سے انکار کر دیتا ہے۔
احمد : ارے وہ اُدھر آگ!۔۔۔
اُس آگ کے پاس ۔۔۔ اک آدمی زاد!۔۔۔
حسنی : گگن سے اُڑ کے دھرت پہ آیا کیسے رنگ گلال!
کالی، پیلی، گیروی، مٹی ہو گئی لال
احمد : (خوف زدہ آواز میں )
خدا جانے یہ کون ہے؟
یار آگے نہ جاؤ!
حسنی : دَھڑ دَھڑ جلے سوکھی لکڑی جگَر جگَر انگار
آگ کی اُٹھی لاٹ سے، نکلیں سرخ انار
بھُبھل ملے سریر پہ، ننگی بیٹھی نار
نس اندھیاری رین ماں یہ کیسا اجیار!
حسنی اور احمد جلدی سے الاؤ کے قریب آ جاتے ہیں ۔ دونوں ، گھوڑے پر سوار ہیں ۔ حسنی آگے ہے۔ ایک ننگ دھڑنگی عورت بدن پہ راکھ ملے بالوں سے منہ چھپائے سر جھکائے سنسان بیٹھی ہے۔ وہ ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتی۔ پہلے تو حسنی اور احمد ڈر کے مارے سہم جاتے ہیں ۔ حسنی، عورت سے مخاطب ہوتا ہے۔
حسنی : اگنی بَرن کی اوٹ ماں ، اپنا بدن چھپا
اوناری! او مورکھ ناری اپنا ناؤں بتا!
ناری : (بڑی ڈراؤنی اور گہری آواز میں )
ناری نہیں ، چڑیل ہوں ، اپنی جان سنبھال
کھائے لُوں گی ترا کالجہ، جیوڑا لوں گی نکال
حسنی : تو مجھے نئیں پچھانتی، میں ہوں مَنش دلیر
ایسا بھالا ماروں گا بس کر دوں گا یہیں ڈھیر
ناری : تو مجھے نئیں پچھانتا، باپ مرا مہاراج
میں ہوں مہا رجپوتنی، گپت مرا سرتاج
حسنی : تو ہے کس مورکھ کی پتنی کون ترا سرتاج ؟
کس کے کارن پھونک دی تو نے اپنی لاج؟
احمد : (حسنی کا شانہ پکڑ کر کہتا ہے)
مرے بھائی نرمی سے بولو!
ناری : ناری سے جب بولیے، کہیے میٹھی بات
جیب سنبھال کے بول رے مورکھ کھول نہ اپنی ذات!
’’کون دِسا سے آیا ہے تو کون دِسا کو جا!
بھالالے ریا ہاتھ ماں گھوڑا ریا نچا‘‘
حسنی : میں ہوں ایک ستاریا کھو گئی میری ستار
نگری نگری گاتا پھروں ، لوگ کہیں گُن کار
ناری : گُنی ہے تو گُن کاری ہے تو کوئی گُن دکھلا
سُرتی رُوپ کو من میں بٹھا کے موہن گیت سنا!
حسنی : تار طنبورے بن او ناری کیسے گاؤں گیت؟
اُجڑے بن کی باس ہے، سنگت بن سنگیت
ناری : بین نہ باجے تار بن، من باجے بن تار
بین بنا جو گیت سناوے وہی بڑا گُن کار
چندر پانچ کی چھیڑ سے سُرتی رُوپ دکھا
سات سُروں کی راگنی اک تارے پر گا
احمد : مرے بھائی کچھ تو سناؤ!
حسنی : ایک نار میں ایسی دیکھی پہر پہر کرے بین
اس کی اکھیاں دیکھ کے بھوربھی دیکھے رین
گورا مکھڑا پیازی برن، چند سے چٹے پیر
پل پل اُس کے دھیان ماں نو اَنبر کی سیر
کس کے کارن جوگن بنی، کیوں چھوڑا گھر بار؟
اپنا محل بتاؤ دے، او دکھیاری نار!
ناری : ’’محل تجھے بتاؤتی‘‘ کھڑی ہوں تن من ہار
’’بجلی پڑواِن محلوں پر، تم پر پڑو انگار‘‘
احمد : ارے آگ!
یہ آگ! —- یہ شور
گھوڑے کے ٹاپوں کی آوازوں اور لوگوں کے شور سے جنگل گونج اُٹھتا ہے۔ آگ کے شعلے آسمان تک بلند ہو رہے ہیں ۔ عورت جنگل کی طرف بھاگ جاتی ہے اور حسنی اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔