میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی
کن بے دِلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کی نور نہ باتوں میں تازگی
بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی
وہ شاعروں کا شہر وہ لاہور بجھ گیا
اگتے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی
میٹھے تھے جِن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی
بازار بند راستے سنسان بے چراغ
وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں کوئی
گلیوں میں اب تو شام سے پھرتے ہیں پہرہ دار
ہے کوئی کوئی شمع سو وہ بھی بجھی بجھی
اے روشنیٔ دِیدہ و دل اب نظر بھی آ
دُنیا ترے فراق میں اندھیر ہو گئی
القصہ جیب چاک ہی کرنی پڑی ہمیں
گو اِبتدائے غم میں بڑی احتیاط کی
اب جی میں ہے کہ سر کسی پتھر سے پھوڑیے
ممکن ہے قلبِ سنگ سے نکلے کوئی پری
بیکار بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کوئی دِن
تصویر کھینچیے کسی موجِ خیال کی
ناصر بہت سی خواہشیں دل میں ہیں بے قرار
لیکن کہاں سے لاؤں وہ بے فکر زندگی
ناصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s