دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دِکھا گیا
وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دُشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا
جدائیوں کے زخم دردِ زِندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہی ں کہ آسمان کھا گیا
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئنے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا
گئے دِنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
الم کشو اُٹھو کہ آفتاب سر پہ آ گیا
ناصر کاظمی