مطلعِ ثانی

دل کھینچتی ہے منزلِ آبائے رفتنی

جو اس پہ مرمٹے وہی قسمت کے تھے دھنی

وہ شیر سو رہے ہیں وہاں کاظمین کے

ہیبت سے جن کی گرد ہوئے کوہِ آہنی

شاہانِ فقر وہ مرے اجدادِ باکمال

کرتی ہے جن کی خاک بھی محتاج کو غنی

سر خم کیا نہ افسر و لشکر کے سامنے

کس مرتبہ بلند تھی اُن کی فروتنی

کرتی تھی ان کے سایہِ محمود میں قیام

قسمت مآبی ، خوش نسبی ، پاک دامنی

شب بھر مراقبے میں نہ لگتی تھی اُن کی آنکھ

دن کو تلاشِ رزق میں کرتے تھے جاں کنی

تھی گفتگو میں نرم خرامی نسیم کی

ہر چند وہ دلیر تھے تلوار کے دھنی

جاتے ہیں اب بھی اس کی زیارت کو قافلے

اُس در کے زائروں کو نہیں خوفِ رہزنی

اُس آستاں کی خاک اگر ضوفشاں نہ ہو

برجوں سے آسمان کے اُڑ جائے روشنی

انبالہ ایک شہر تھا ، سنتے ہیں اب بھی ہے

میں ہوں اُسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی

اے ساکنانِ خطہِ لاہور! دیکھنا

لایا ہوں اُس خرابے سے میں لعلِ معدنی

جلتا ہوں داغِ بے وطنی سے مگر کبھی

روشن کرے گی نام مرا سوختہ تنی

خوش رہنے کے ہزار بہانے ہیں دہر میں

میرے خمیر میں ہے مگر غم کی چاشنی

یارب! زمانہ ممتحنِ اہلِ صبر ہے

دے اس دنی کو اور بھی توفیقِ دُشمنی

ناصر یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آبدار

اس فن میں کی ہے میں نے بہت دیر جانکنی

ہر لفظ ایک شخص ہے ، ہر مصرع آدمی

دیکھو مری غزل میں مرے دل کی روشنی

ناصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s