لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے

لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے
لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے
لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے
یہ گل چنے ہیں شہیدوں کی داستاں کے لیے
کھڑے ہیں شاہ کمربستہ امتحاں کے لیے
پھر ایسی رات کب آئے گی آسماں کے لیے
دیا بجھا کے یہ کہتے تھے ساتھیوں سے حسینؑ
جو چاہو ڈھونڈ لو رَستا کوئی اماں کے لیے
کہا یہ سن کے رفیقوں نے یک زباں ہو کر
یہ جاں تو وقف ہے مولائے انس و جاں کے لیے
ہمیں تو منزلِ آخر ہے آستانِ حسینؑ
یہ سر جھکے گا نہ اب اور آستاں کے لیے
ستارے ڈوب گئے وقت ڈھونڈتا ہے پناہ
کڑی ہے آج کی شب دَورِ آسماں کے لیے
گواہی باقی ہے اصغر کی لے چلے ہیں حسینؑ
ورق اک اور بھی ہے زیبِ داستاں کے لیے
لٹا ہے دشتِ غریبی میں کارواں کس کا
کہ خاک اُڑاتی ہے منزل بھی کارواں کے لیے
کہاں کہاں نہ لٹا کاروانِ آلِ نبیؐ
فلک نے ہم سے یہ بدلے کہاں کہاں کے لیے
یہ دشتِ کرب و بلا ہے جنابِ خضر یہاں
ہے شرط تشنہ لبی عمرِ جاوداں کے لیے
بہے ہیں کس قدر آنسو چھپے ہیں کتنے ہی داغ
یہ جمع و خرچ ہے باقی حساب داں کے لیے
سکوتِ اہل سخن بھی ہے ایک طرزِ سخن
یہ نکتہ چھوڑ دیا میں نے نکتہ داں کے لیے
سخن کی تاب کہاں اب کہ دل ہے خوں ناصر
زبانِ تیر چلی ایک بے زباں کے لیے
(۱۸ مارچ ۱۹۷۰ ۔ پاکستان ٹیلیویژن لاہور)
ناصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s