زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
زندہ قوموں کی تاریخ میں نام ترا تابندہ رہے گا
جموں اور کشمیر سے پہلے تو ہے نصرت کا دروازہ
دُشمن بھی اب کر بیٹھا ہے تیری جرأت کا اندازہ
زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
شاعرِ مشرق کا تو مسکن ، تجھ پہ بزرگوں کا ہے سایا
جس نے تجھ پر ہاتھ اُٹھا یا ، تو نے اُس کا نام مٹایا
زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
دوسری جنگِ عظیم کے بعد نہیں دیکھی ہے ایسی لڑائی
سرحد سرحد دیکھ چکی ہے دُنیا دُشمن کی پسپائی
زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
تیری سرحد سرحد پر دُشمن کا قبرستان بنا ہے
تیری جانبازی کا سکہ دُنیا نے اب مان لیا ہے
زندہ رہے گا زندہ رہے گا، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
پاک فوج ہے تیری محافظ ایک وار بس اَور دکھادے
اُٹھ اور نام علیؑ کا لے کر دُشمن کو مٹی میں ملا دے
زندہ رہے گا زندہ رہے گا ، سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
(۹ ستمبر ۱۹۶۵)