دُور اِس تیرہ خاکداں سے دُور
دیکھ دنیائے جسم و جاں سے دور
آنے والی بہار کے افسوں
دیکھ ویرانۂ خزاں سے دُور
پھول جلتے ہیں شاخچوں سے جدا
شمع روتی ہے شمعداں سے دُور
شہر خلقِ خدا سے بیگانہ
کارواں میرِ کارواں سے دُور
تیرے زندانیوں کی کون سنے
برق چمکی ہے آشیاں سے دُور
چیختی ہیں ڈراؤنی راتیں
چاند نکلا ہے آسماں سے دُور
سو گیا پچھلی رات کا جادو
کوئی اب لے چلے یہاں سے دُور
دل عجب گوشۂ فراغت ہے
کیوں بھٹکتے ہو اس مکاں سے دُور
کوئی سنتا نہیں یہاں ناصر
بات دل کی رہی زباں سے دور
ناصر کاظمی