حسن کہتا ہے اِک نظر دیکھو
دیکھو اور آنکھ کھول کر دیکھو
سن کے طاؤسِ رنگ کی جھنکار
ابر اُٹھا ہے جھوم کر دیکھو
پھول کو پھول کا نشاں جانو
چاند کو چاند سے اُدھر دیکھو
جلوئہ رنگ بھی ہے اِک آواز
شاخ سے پھول توڑ کر دیکھو
جی جلاتی ہے اوس غربت میں
پاؤں جلتے ہیں گھاس پر دیکھو
جھوٹی امید کا فریب نہ کھاؤ
رات کالی ہے کس قدر دیکھو
نیند آتی نہیں تو صبح تلک
گردِ مہتاب کا سفر دیکھو
اِک کرن جھانک کر یہ کہتی ہے
سونے والو ذرا اِدھر دیکھو
خمِ ہر لفظ ہے گلِ معنی
اہلِ تحریر کا ہنر دیکھو
ناصر کاظمی