درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے
درد کی خامشی کا سخن پھول ہے
اُڑتا پھرتا ہے پھلواریوں سے جدا
برگِ آوارہ جیسے پون پھول ہے
اس کی خوشبو دکھاتی ہے کیا کیا سمے
دشتِ غربت میں یادِ وطن پھول ہے
تختہِ ریگ پر کوئی دیکھے اسے
سانپ کے زہر میں رس ہے پھن پھول ہے
میری لے سے مہکتے ہیں کوہ و دَمن
میرے گیتوں کا دِیوانہ پن پھول ہے
ناصر کاظمی