خوفِ بے مہریٔ خزاں بھی ہے

فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے
خوفِ بے مہریٔ خزاں بھی ہے
خاک بھی اُڑ رہی ہے رستوں میں
آمدِ صبح کا سماں بھی ہے
رنگ بھی اُڑ رہا ہے پھُولوں کا
غنچہ غنچہ شررفشاں بھی ہے
اوس بھی ہے کہیں کہیں لرزاں
بزمِ انجم دھواں دھواں بھی ہے
کچھ تو موسم بھی ہے خیال انگیز
کچھ طبیعت مری رواں بھی ہے
کچھ ترا حسن بھی ہے ہوش رُبا
کچھ مری شوخیٔ بیاں بھی ہے
ہر نفس شوق بھی ہے منزل کا
ہر قدم یادِ رفتگاں بھی ہے
وجہِ تسکیں بھی ہے خیال اُس کا
حد سے بڑھ جائے تو گراں بھی ہے
زندگی جس کے دم سے ہے ناصر
یاد اُس کی عذابِ جاں بھی ہے
ناصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s